آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ بے شک اللہ تعالٰی نے مرض کو بھی نازل کیا ہے اور دعا کو بھی نازل کیا ہےاور دوسری جگہ ارشاد ہے کہ اللہ تعالٰی نے ہر مرض کی دوا پیدا کی ہے مگر ایک کی نہیں۔ لوگوں نے پوچھا وہ کونسا مرض ہے تو آپﷺ نے فرما یا وہ بہت زیادہ بڑھاپا ہے۔
بہر کیف مسلمانانِ اسلام! جس طرح اللہ تعالٰی نے مادی ادویات سے علاج میں شفا رکھی ہے اسی طرح روحانی طور پر دم کرنے اور نقش و تعویز سے علاج میں بھی شفا رکھی ہے۔ تعویز تعوذ سے نکلا ہے جس کے معنیٰ ہیں کسی کواللہ تعالٰی کی پناہ میں دینا۔ اب ایسی بہت سی روایت ہیں جن سےثابت ہوتا ہے کہ آپﷺ بنفسِ نفیس خود دم کرتے تھے۔
بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرما یا اللہ تعالٰی نے تمام بیماریوں کی شفا سورہ فاتحہ میں رکھی ہے اس سے ظاہری اور باطنی دونوں شفا مراد ہیں اور واقعہ بھی بہت مشہور ہے کہ صحابہ رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین سفر میں جا رہے تھے راستے میں ایک مقام پر پڑاؤ ڈالا اور قریبی بستی والوں سے کھانا طلب کیا مگر انہوں نے دینے سے انکار کردیا تھوڑا سا وقت گزرا تھا اس بستی والوں کے سردار کی بیٹی کو سانپ نے ڈس لیا بعض روایت میں آتا ہے کہ آسیبی اثرات کی بناء پر بیہوشی کا دورہ پڑا تو بستی کے چند لوگ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے پاس آئے کہ ہمارے سردار کی بیٹی کو کچھ ہوگیا ہے ہم تمہیں نیک لوگ سمجھتے ہیں اسکا کچھ کرو تو ایک صحابی اٹھے انہوں نے کہا چلو میں دیکھتا ہوں چناچہ وہ صحابی ان کے ساتھ گئے اور سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کرنے لگے با لآخر وہ لڑکی ٹھیک ہوگئی تو اس سردار نے خوشی میں ان کو 100 بکریاں دیں وہ صحا بی لیکرواپس پہنچے تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی عنہم اجمعین میں اختلاف ہوگیا کہ یہ بکریاں ہمار ےلئے حلال بھی ہیں یا نہیں؟ ایک گروہ حلال سجھتے ہوئے انکا دودھ وغیرہ استعمال کرتا رہا جبکہ دوسرا گروہ جوعدم جواز کا قائل تھا وہ پرہیز کرتا رہا بالا خر جب مدینہ پہنچے آپﷺ کے سامنے اس واقعہ کا ذکر ہوا تو آپﷺ نے ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا بلکہ اس کو جائز قرار دیتے ہوئے اپنے لئے بھی حصہ مقرر کیا اور اجازت دی سب بکریاں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی عنہم اجمعین کے لئے جائز ہیں اور ساتھ ساتھ پوری امت کے لئے ایک سبق بھی دے دیا کہ اگر اس طرح کا واقعہ آجائے تو آپ دم وغیرہ پر اجرت لے سکتے ہیں۔
یہ واقعہ صحیح مسلم شریف میں بھی ہے اور علامہ ابن تمیمہ رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اس پر بڑی شاندار بحث کی ہے اور انہوں نے بھی دم وغیرہ کی اجرت کو جائز لکھا ہے۔
یہ واقعہ صحیح مسلم شریف میں بھی ہے اور علامہ ابن تمیمہ رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اس پر بڑی شاندار بحث کی ہے اور انہوں نے بھی دم وغیرہ کی اجرت کو جائز لکھا ہے۔
0 comments:
Post a Comment